Wednesday, 29 July 2020

ریلیف پیکج کے تحت آٹے اور چینی کی بلیک میں فروخت



اسلام آباد (این این آئی)وزیر اعظم عمران خان نے یوٹیلٹی اسٹورز پر اربوں روپے کی سبسڈی کے باوجود عوام کو سستی چینی اور آٹا نہ ملنے کی شکایات اور اسٹورز پر مہنگی اشیاء کی خریداری اور فروحت کی شکایات پر نوٹس لے لیا۔چیئرمین یو ٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن ذوالقرنین خان نے نجی ٹی وی سے گفتگو میں تصدیق کی ہے کہ وزیر اعظم نے یوٹیلٹی اسٹورز پر عوام کو سستے نرخوں پر اشیائے ضروریہ فراہم نہ ہونے اور مہنگی خرید و فروخت میں گڑ بڑ کے معاملے کا نوٹس لیا ہے اور ا ووٹس کے بعد یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن بورڈ کا اجلاس ہوا اور بورڈ نے وزیراعظم پیکج کے تحت خریداری اورعوام کے لیے اشیاء کی دستیابی کے معاملے پر انکوائری شروع کر دی ہے۔ذرائع کے مطابق چیئر مین یوٹیلٹی اسٹورز بورڈ نے 15 روز میں انکوائری رپورٹ طلب کر لی ہے۔حکومتی ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نے مالی مشکلات کے باوجود یوٹیلٹی اسٹورز پر ریلیف پیکچ دیا، اس کے باوجود ملک کے اکثر یوٹیلٹی اسٹورز پر چینی اور آٹے کی قلت کا سامنا ہے اور غریب عوام اوپن مارکیٹ سے مہنگے داموں چینی اور آٹا خریدنے پر مجبور ہیں۔یوٹیلٹی اسٹورز پر وزیراعظم ریلیف پیکج کے تحت چینی 68 روپے فی کلو اور آٹے کے 20 کلو والے تھیلے کی قیمت 800 روپے ہے۔ذرائع کے مطابق یوٹیلٹی اسٹورز پر مہنگی دالیں اور چینی کی خریداری کی شکایات ہیں اور یہ شکایت بھی سامنے آئی ہیں کہ ریلیف پیکچ کے تحت آٹے اور چینی کی بلیک میں فروخت بھی کی گئی ہے۔ عمران خان نے یوٹیلٹی اسٹورز پر اربوں روپے کی سبسڈی کے باوجود عوام کو سستی چینی اور آٹا نہ ملنے کی شکایات اور اسٹورز پر مہنگی اشیاء کی خریداری اور فروحت کی شکایات پر نوٹس لے لیا۔چیئرمین یو ٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن ذوالقرنین خان نے نجی ٹی وی سے گفتگو میں تصدیق کی ہے کہ وزیر اعظم نے یوٹیلٹی اسٹورز پر عوام کو سستے نرخوں پر اشیائے ضروریہ فراہم نہ ہونے اور مہنگی خرید و فروخت میں گڑ بڑ کے معاملے کا نوٹس لیا ہےمعاملے کی انکوائری شروع کروا دی گئی ہے. 

Saturday, 25 July 2020

Once upon a time ۔.....

ایک روز شوہر نے پرسکون ماحول میں اپنی بیوی سے کہا : بہت دن گزر گئے ہیں میں نے اپنے گھر والوں بہن بھائیوں اور ان کے بچوں سے ملاقات نہیں کی ہے۔ میں ان سب کو گھر پر جمع ہونے کی دعوت دے رہا ہوں اس لیے براہ مہربانی تم کل دوپہر اچھا سا کھانا تیار کر لینا۔

بیوی نے گول مول انداز سے کہا : ان شاء اللہ خیر کا معاملہ ہو گا۔

شوہر بولا : تو پھر میں اپنے گھر والوں کو دعوت دے دوں گا۔

اگلی صبح شوہر اپنے کام پر چلا گیا اور دوپہر ایک بجے گهر واپس آیا۔ اس نے بیوی سے پوچھا :

کیا تم نے کھانا تیار کر لیا ؟ میرے گھر والے ایک گھنٹے بعد آ جائیں گے !

بیوی نے کہا : نہیں میں نے ابھی نہیں پکایا کیوں کہ تمہارے گھر والے کوئی انجان لوگ تو ہیں نہیں لہذا جو کچھ گھر میں موجود ہے وہ ہی کھا لیں گے۔

شوہر بولا : اللہ تم کو ہدایت دے ... تم نے مجھے کل ہی کیوں نہ بتایا کہ کھانا نہیں تیار کرو گی ، وہ لوگ ایک گھنٹے بعد پہنچ جائیں گے پھر میں کیا کروں گا۔

بیوی نے کہا : ان کو فون کر کے معذرت کر لو ۔۔۔ اس میں ایسی کیا بات ہے وہ لوگ کوئی غیر تو نہیں آخر تمہارے گھر والے ہی تو ہیں۔

شوہر ناراض ہو کر غصے میں گھر سے نکل گیا۔

کچھ دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی۔ بیوی نے دروازہ کھولا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ اس کے اپنے گھر والے ، بہن بھائی اور ان کے بچے گھر میں داخل ہو رہے ہیں !

بیوی کے باپ نے پوچھا : تمہار شوہر کہاں ہے ؟

وہ بولی : کچھ دیر پہلے ہی باہر نکلے ہیں۔

باپ نے بیٹی سے کہا : تمہارے شوہر نے گزشتہ روز فون پر ہمیں آج دوپہر کے کھانے کی دعوت دی ۔۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ دعوت دے کر خود گھر سے چلا جائے !

یہ بات سُن کر بیوی پر تو گویا بجلی گر گئی۔ اس نے پریشانی کے عالم میں ہاتھ ملنے شروع کر دیے کیوں کہ گھر میں موجود کھانا اس کے اپنے گھر والوں کے لیے کسی طور لائق نہ تھا البتہ یقینا اس کے شوہر کے گھر والوں کے لائق تھا۔

اس نے اپنے شوہر کو فون کیا اور پوچھا : تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں کہ دوپہر کے کھانے پر میرے گھر والوں کو دعوت دی ہے۔

شوہر بولا : میرے گھر والے ہوں یا تمہارے گھر والے ۔۔۔ فرق کیا پڑتا ہے۔

بیوی نے کہا : میں منت کر رہی ہوں کہ باہر سے کھانے کے لیے کوئی تیار چیز لے کر آجاؤ ، گھر میں کچھ نہیں ہے۔

شوہر بولا : میں اس وقت گھر سے کافی دُور ہوں اور ویسے بھی یہ تمہارے گھر والے ہی تو ہیں کوئی غیر یا انجان تو نہیں۔ ان کو گھر میں موجود کھانا ہی کھلا دو جیسا کہ تم میرے گھر والوں کو کھلانا چاہتی تھیں.. "تا کہ یہ تمہارے لیے ایک سبق بن جائے جس کے ذریعے تم میرے گھر والوں کا احترام سیکھ لو" !.

لوگوں کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرو جیسا تم خود ان کی طرف سے اپنے ساتھ معاملہ پسند کرتے ہو.......
اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئے تو کمنٹس میں ضرور بتانا شکریہ ۔.........۔

Wednesday, 22 July 2020

بستیاں کیوں ویران ہوتی ہے۔

طوطی اور طوطے کا گزر ایک بستی سے ہوا،انہوں نے دیکھا کے ساری بستی ویران پڑی ہے۔طوطی نے طوطے سے پوچھا، یہ بستی کیوں ویران پڑی ہے۔ طوطے نے جواب دیا، لگتا ہے یہاں سے اُلٙو گزرا ہے، عین اس کے وقت اُلٙو بھی گزر رہا تھا،اس نے طوطے کی بات سنی۔اولو نے طوطے سے کہا،لگتا ہے آپ اس علاقے میں مسافر ہے۔ آج رات تم دونوں میرے ساتھ ٹھہر جاؤ،
اور مجھے مہمان نوازی کا موقع دو۔ طوطے کے جوڑے نے اُلو کی محبت بھری دعوت سے انکار نہ کر سکے۔ اور انہوں نے اْلو کی دعوت قبول کرلی۔ کھانا کھا کر جب انہوں نے رخصت ہونے کی اجازت چاہی۔ تو اْلو نے طوطی کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا ۔ تم کہاں جا رہی ہو ۔ طوطی پرشان ہو کر بولی یہ کوئی پوچنے کی بات ہے ۔ میں اپنے خاوند کے ساتھ واپس جا رہی ہوں۔ الو یہ سن کر ہنسا۔ اور کہا ۔ یہ تم کیا کہ رہی ہوتم تو میری بیوی ہو.۔ اس پہ طوطا طوطی الو پر جھپٹ پڑے اور گرما گرمی شروع ہو گئی۔ دونوں میں جب بحث و تکرار زیادہ بڑھی تواْلو نے طوطے کے کے سامنے ایک تجویز پیش کرتے ہوئے کہا۔۔’’ایسا کرتے ہیں ہم تینوں عدالت چلتے ہیں اور اپنا مقدمہ قاضی کے سامنے پیش کرتے ہیں۔۔ قاضی جو فیصلہ کرے وہ ہمیں قبول ہوگا۔۔ اْلو کی تجویز پر طوطا اور طوطی مان گئے اور تینوں قاضی کی عدالت میں پیش ہوئے ۔ ،قاضی نے دلائل کی روشنی میں اْلو کے حق میں فیصلہ دے کر عدالت برخاست کردی۔ طوطا اس بے انصافی پر روتا ہوا چل دیا تو اْلو نے اسے آواز دی ۔ ’’بھائی اکیلئے کہاں جاتے ہواپنی بیوی کو تو ساتھ لیتے جاؤ‘‘طوطے نے حیرانی سے اْلو کی طرف دیکھا اور بولا ’’اب کیوں میرے زخموں پر نمک چھڑکتے ہو۔ یہ اب میری بیوی کہاں ہے ۔ عدالت نے تو اسے تمہاری بیوی قرار دے دیا ہے‘‘ اْلو نے طوطے کی بات سن کر نرمی سے بولا۔ نہیں دوست طوطی میری نہیں تمہاری ہی بیوی ہے۔ میں تمہیں صرف یہ بتانا چاہتا تھا کہ بستیاں الو ویران نہیں کرتے۔ بستیاں تب 
ویران ہوتی ہیں جب ان سے انصاف اٹھ جاتا ہے۔

  کھیتوں اور باغات سے گھرے ایک پُرسکون گاؤں میں آموس نام کا ایک بوڑھا آدمی رہتا تھا۔ اگرچہ گاؤں اس کا گھر تھا، لیکن اموس کو شہر کو دیکھنے کی...