پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت نے مہنگائی سے تنگ عوام کو ریلیف دینے اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کو مستحکم رکھنے کے لیے سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔
منگل کو وفاقی کابینہ نے جس پیکیج کی منظوری دی اس کے مطابق یوٹیلٹی سٹورز پر گندم، چینی ، چاول، دالوں، اور گھی کی قیمتوں میں کمی لانے کے لیے آئندہ پانچ ماہ تک دو ارب روپے ماہانہ سبسڈی دی جائے گی۔
یوٹیلٹی سٹورز کو ہدایت کی گئی ہے کہ عوام کو آٹے کا 20 کلو کا تھیلا 800 رپے، چینی 70 روپے کلو، گھی 175 روپے فی کلو فراہم کیا جائے جبکہ چاول اور دالوں کی قیمتوں میں 15 سے 20 روپے تک کمی کو یقینی بنایا جائے ۔
سبسڈی کیوں اور کہاں دی جاتی ہے ؟
ماہرین کے مطابق سبسڈی مالی یا غیر مالی مد میں دی جانے والی وہ رعایت ہوتی ہے جس کا مقصد معاشی شعبے، اداروں، تجارت اور شہریوں کی معاشی اور سماجی پالسیوں کو استحکام دینا ہوتا ہے۔
یہ سبسڈی پیداواری اداروں اور صارفین دونوں کو ہی دی جاتی ہیں۔
ماہر معاشیات اشفاق تولہ کا کہنا ہے کہ اگر مہنگائی بہت بڑھ چکی ہو اور اس سے نچلا طبقہ متاثر ہو رہا ہو تو اس صورتحال میں حکومتیں سبسڈی دے کر عوام کی مشکلات میں کمی لاتی ہیں تاکہ محروم طبقے کو ریلیف دیا جا سکے۔
اس کا طریقہ عموماً یہ ہوتا ہے کہ حکومت ضروری استعمال کی اشیا کو مارکیٹ سے مہنگے داموں خرید کر سستی قیمت میں عوام کو فراہم کرتی ہے۔ اس کی مثال یوٹیلیٹی سٹورز کی ہے جہاں عام مارکیٹ سے کم قیمت میں کھانے پینے کی اشیا دستیاب ہوتی ہیں۔
BBC News اردو کی یو ٹیوب پر پوسٹ کا خاتمہ
سبسبڈی کی مختلف اقسام ہیں جن میں نقد گرانٹ، بلاسود قرضے کی فراہمی، ٹیکس کی معافی، ٹیکس میں چھوٹ، ٹیکس میں رعایت اور قرضے کی معافی شامل ہے۔
عمران خان کی حکومت نے رواں مالی سال میں مختلف مدوں میں دی جانے والی سبسڈیز میں ساڑھے چھ فیصد کا اضافہ کیا۔ گذشتہ مالی سال میں مختلف مدوں میں دو ارب 55 کروڑ کی سبسڈی دی گئی تھی جسے رواں مالی سال میں بڑھا کر دو ارب 71 کروڑ روپے کیا گیا ہے۔
سب سے زیادہ سبسڈی بجلی کی مد میں ادا کی جاتی ہے جس کی شرح 70 فیصد ہے۔ قبائلی علاقوں، کشمیر اور کراچی میں بجلی کی سستی فراہمی کے لیے حکومت اپنی جیب سے کمپنیوں کی ادائیگی کرتی ہے۔ اس کے علاوہ کھاد،
زرعی ٹیوب ویلوں اور گیس کی مد میں بھی سبسڈی دی جاتی ہے۔
یوٹیلٹی سٹور کیا غریب دوست ہیں؟
تحریکِ انصاف کی حکومت نے عوام کو ارزاں نرخوں پر کھانے پینے کی اشیا کی فراہمی کے لیے یوٹیلٹی سٹورز کا سہارا لیا ہے۔ یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک بھر میں چھوٹے بڑے پانچ ہزار سے زیادہ سٹور ہیں۔
ماہر معیشت قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ یوٹیلٹی سٹورز کی تعداد بہت کم ہے جسے بڑھانے کی ضرورت ہے اور بہت سارے سٹور تو امیر علاقوں میں قائم ہیں جہاں غریب آدمی کی پہنچ نہیں ہے۔
’اگر کوئی شخص سٹور سے ایک من چینی خرید لے تو اس کی روک تھام نہیں ہے۔ خاص طور پر ریستوران اور بیکری والے بڑی مقدار میں اشیا لے کر چلے جاتے ہیں۔ غریب آدمی بڑی مقدار میں خریداری نہیں کر سکتا۔ وہ ایک پاؤ اور کلو کے حساب سے خریداری کرتا ہے کیونکہ ان میں قوت خرید نہیں ہوتی اس صورتحال میں ایک پالیسی بنانی چاہیے کہ ہم تقسیم کس طرح سے کریں گے۔‘
جیب میں کچھ ہوگا تو خریدے گا
عالمی بینک کے تخیمنے کے مطابق پاکستان کی شرح نمو سال 2020 میں تین فیصد کی کمزور سطح پر رہنے کا امکان ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ گذشتہ برس جی ڈی پی نمو 3.3 فیصد تھی۔
ماہر معیشت ڈاکٹر حفیظ پاشا کا دعویٰ ہے کہ یہ شرح 1.9 فیصد تھی۔ ان کے اندازے کے مطابق گذشتہ برس 10 لاکھ افراد بےروزگار ہوئے اور رواں برس مزید 12 لاکھ افراد بے روزگار ہو سکتے ہیں۔
اشفاق تولہ کا کہنا ہے کہ اگر معیشت کا پہیہ چل ہی نہیں رہا تو سبسڈی بھی بےسود ہے کیونکہ اگر آپ کے پاس ملازمت ہی نہیں ہوگی تو آپ چیز خریدیں گے ہی کیسے چاہے وہ مہنگی ہو یا سستی۔
’جس طرح سے معیشت زبوں حالی کا شکار ہے، لوگ بیروزگار ہو چکے ہیں اور مزید ہو رہے ہیں انہیں اس سبسڈی سے کیا فائدہ ہو گا۔ ان کے پاس دو وقت کھانے کے پیسے بھی نہیں ہیں۔‘
No comments:
Post a Comment